غزہ کی جیت !

نیاز سواتی
niazhussain.swati@yahoo.com

غزہ کی جیت !
یہ شعب ابی طالب کا منظر ہے ۔ آپ ﷺ اور صحابہ کرامﷺ کا مقاطعہ کردیا گیاہے ۔ خون سفید ہوگیا ہے ۔ اپنے شہر مکہ کے باسیوں نے ایمان کی سزا کچھ ایسے انداز میں دی ہے کہ عورتیں اور بچے بھوک کے مارے پتےّ اورچمڑا تک چبانے پر مجبور ہیں ۔ایسے موقع پر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ قریش کی مال دار ترین خاتون حضرت خدیجہ کبریٰ رضی اللہ عنہا بھی تمام دولت اور گھر بار چھوڑکر آپ ﷺ اور دیگر اہل ایمان کے ہمراہ آزمائش کی اس گھڑی میں شعب ابی طالب میں محصور ہیں۔ یہ ظلم …. اور ایمان پر استقامت ، بلاشبہ غیر متزلزل ۔ اللہ نے اپنے بندوں کو آزمالیا ۔ قریش میں سے کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ اپنوں کا ےہ بائےکاٹ نہاےت زیادتی کی بات ہے ۔ایک آدمی نے دوسرے سے بات کی اور دوسرے نے تیسرے کو راضی کیا ۔ قریش کے دیگر خدا ترس لوگ بھی ناانصافی پر مبنی اس مقاطعے کے سخت خلاف تھے مگر قریش کے اس اجتماعی فیصلے کے سامنے مصلحت کے طور پرخاموش رہے ۔ اب نئے حالات میں انہوں نے بھی بغاوت کرکے اس معاہدے سے برا ¿ت کا اعلان کیا ۔ ادھر خالق کائنات نے آپ ﷺ کو بذریعہ وحی مطلع کیا کہ قریش کا وہ معاہدہ جو مسلمانوں کے مقاطعے کے لیے تحریر کرکے خانہ کعبہ میں لٹکادیا گیا تھا اسے مشیت الٰہی سے دیمک کھا چکی ہے اور سوائے اللہ کے پاک نام کے معاہدے کا ایک لفظ بھی باقی نہیں بچا۔ قصہ مختصر یہ کہ معاشی مقاطعہ بلآخر اپنی موت آپ مرگیا ۔ ایمان جیت گیا اور اللہ کی مدد آگئی ۔یو ں یہ بائیکاٹ ختم ہوا اور اہل ایمان اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔
آج ۸۲ مئی کے دن ایسو سی ایٹڈ پریس نے غزہ کو مصر سے ملانے والے رفحہ بارڈر کو مستقلاََ کھولنے کے مصری اعلان کی خبر جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ صیہونی ریاست نے اس خبر پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ ےہ پیش رفت معمولی نہیں ،غزہ کوفلسطینیوں کے لیے نیا شعب ابی طالب بنا دیا گیا تھا ۔ یہ سب کچھ غیرتنہا نہیں کرسکتے تھے ،حسنی مبارک کی ملعون حکومت کی شراکت سے غزہ کو دنیا بھر سے کاٹ کر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی سزا دی گئی ۔ اس موقع پر فلسطینیوں کے دوسرے گروپ الفتح کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا جس نے امریکہ کی کاسہ لیسی کرکے غزہ کو ایک قید خانہ بنانے میں پوری پوری مدد کی ۔ ایسے میں ترکی کی حکومت کی سرپرستی میں ، غزہ کی چلنے والے بحری جہاز فریڈم فلوٹیلا کی مہم نے ایک نئی داستان رقم کرکے اسرائیل کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ۔ اب اسرائیل مغرب میں اپنے بے تحاشا اثرات کے باوجود دفاعی پوزیشن میں آگیا۔ ادھر الفتح کو احساس ہوا کہ امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ ہدف بننے اور بے مثال قربانیوں کے بعد حماس فلسطینی عوام کے دلوں میں گھر کرتی چلی جارہی ہے اور اسرائیل کا رویہ بھی الفتح سے دن بدن حقارت آمیز ہوتا جارہا ہے ۔ایسے میں الفتح کی طرف سے حماس کی طرف صلح کے پیغامات بھیجے گئے ۔ حماس اس سے پہلے بھی قائم ہونے والی حکومت میں ملّی اتحاد کے خاطراہم وزارتوںکی قربانی دے کر نئی تاریخ رقم کرچکی تھی ۔ قربانیوں کی خوگر حماس نے صلح کی اس پیش کش کو قبول کیا ۔ یہ خبر اسرائیل اور امریکا پر بم بن کر گری ۔تاریخ میں پہلی بار کسی امریکی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم کو ۷۶۹۱ءکی اسرائیلی سرحدوں کی طرف جانے کو کہا ۔ ادھر اسرائیلی وزیراعظم نے بھی اپنی قوم کو تلخ فیصلوں کے لیے تیار رہنے کی خوش خبر دی ۔ عرب دنےا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور علاقے مےں بڑھتی ہوئی امرےکہ کی مخالفت کے پےش نظر ، امرےکہ نے بھی پےنترے بدلے ۔اب خبر ہے کہ صدر اوبامہ وائٹ ہاﺅس مےں ملاقات کے لئے آنے والے اسرائےلی وزےراعظم نےتن ےاہو کو نظر اندازکرتے ہوئے اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھومنے پھرنے روانہ ہو گئے، دوسری خاص خبر ےہ ہے کہ وائٹ ہاﺅس نے صدر اوبامہ کی اےک تصوےر جاری کی ہے جس مےں وہ اسرائےلی وزےراعظم نےتن ےاہو سے فون پر بات کر رہے ہےںاور تصوےر مےں دکھاےا گےا ہے کہ بات کرتے ہوئے صدر اوبامہ صوفے پر نےم دراز ہےں اور ٹانگ پر ٹانگ دھرے بےٹھے ہےں۔ امرےکی پرےس مےں اس تصوےر کی اشاعت نے امرےکہ مےں صےہونی لابی کو مشتعل کر دےا ہے۔اےسے نازک موقع پر کہ جب امرےکی انتخابات قرےب ہےں ، صدر اوبامہ نے صےہونی لابی کی ناراضگی کو اس لےے گوارہ کر لےا کہ تازہ ترےن امرےکی سروے بتا رہے ہےں کہ امرےکی رائے عامہ کی اکثرےت اسرائےل کی طرف سے غزہ کے محاصرے کے بعد اسرائےل کے خلاف ہو چکی ہے۔
بہر حال فلسطینیوں میں باہمی اتحاد کی بات چیت مکمل ہوچکی ہے ۔رفحہ کا بارڈر مستقلاََ کھل چکا ہے ۔ مگر دشمن بہت عیار ہے ۔ فلسطینی مسلمانوں کو پھونک پھونک کر قدم رکھناہے۔آزاد و خود مختار فلسطینی مملکت کے قیام کے لیے اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہنے اور اتحا د کی موجودہ فضاکو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ آج فلسطینیوں کو ملنے والی خوش خبریاں ان لاتعداد شہداءکی برکت سے ملی ہیںجو اللہ کے حضور اپنی نذر پوری کرچکے ہیں ۔۔ بے شک اسرائیل کا وجو د بہت کمزور ہے مگر اسرائیل کی زندگی مسلمانو ں کے عدم اتحاد کی مرہون منت ہے۔ یہ حماس کی جہاد اور اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے اصولی موقف سے مستحکم وابستگی کی ثمر ہ ہے کہ فلسطینی مملکت کا قیام نوشتہ ¿ دیوا ر بن چکا ہے ۔ آئیے اس موقع پر حماس کے شہید رہنما شیخ احمد یاسین کو یا د کریں جنہیں پیرانہ سالی اور فالج کے باوجود اسرائیل نے میزائل حملوں کا نشانہ بناےا مگر جرات اور استقامت کاےہ پہاڑ آج فلسطےن کی رگوں مےں لہو بن کر دوڑ رہا ہے ۔
ع ہمارا لہو بھی شامل ہے تزئےنِ گلستان مےں
ہمیں بھی ےاد کر لےنا چمن مےں جب بہار آئے

تبصرہ کریں