غذا ء،بھوک اورکچرادان



نیاز سواتی
niazhussain.swati@yahoo.com

گزشتہ چند دہائیوں میں سطح زمین کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک طرف سنگ و آہن کی بلند با لا عمارات ابھر کر سامنے آچکی ہیں تو دوسری طرف وہ جنگلات جنہوں نے زمین کے بڑے حصے کو ڈھک رکھا تھا اب کہیں نظر نہیں آتے ۔ جنگلات کے رقبوں میں تازہ اضافہ ان کھیتوں کا جنہوں نے خطہ ارض کو فوڈ فیکٹری میں تبدیل کردیا ہے۔ زرعی مقاصد کے لئے جنگلات کی صفائی کئی خطرناک مضمرات رکھتی ہے۔ بارانی جنگلات خاص طور پر خطِ استواءکے علاقے کے گھنے جنگلات، آکسیجن کی فراہمی کے حوالے سے دنیا کے پھیپھڑے کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ کچھ عرصے سے پام آئل اور دیگر غذائی ضروریات کے لئے ان جنگلات کی بڑے پیمانے پر صفائی کی گئی۔ ہمارے ملک میں شمالی علاقہ جات ،صوبہ سرحد اور بالائی پنجاب کے بارانی جنگلات ایندھن کی لکڑی کے حصول اور بڑے پیمانے پر لکڑی کی اسمگلنگ کے نتیجے میں زوال کی طرف گامزن ہیں ۔ بہر حال دنیا بھر میں جنگلات زرعی مقاصد کے تحت صاف کئے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں ایک طرف جہاں ماحولیات کے مسائل میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف غذائی اشیاءکی بہتات نے خوراک کو ضائع کرنے کے رجحان میں بھی اضافہ کیا۔
خوراک کی عالمی منڈی کی ایک صارف کی حیثیت سے جو بھی غذائی اشیاءہم استعمال کرتے ہیں ان سب کا براہ راست تعلق عالمی پیمانے پر زرعی اجناس کی عالمی مارکیٹ سے ہی ہوتا ہے ۔دنیا کے کسی ایک خطے میں خوراک کی طلب دراصل دنیا کے دیگر خطوں میں ہزاروں میل کے علاقے کو کھیتوں میں تبدیل کرنے کے عمل کو مہمیز کرتی ہے۔دور دور تک لہلہاتے کھیت ایک دلکش منظر پیش کرتے ہیں مگر کھیتوں میں یہ اضافہ جنگلات کے خاتمے کی قیمت پر ہورہا ہے،مثلاََ خوردنی تیل کی بڑھتی ہوئی طلب، جنوب مشرق ایشیاءاور جنوبی امریکہ کے استوائی جنگلات کا تیزی سے صفایا کر رہی ہے۔ ان خطوں میں ایک طرف تو فطری حسن و دولت سے مالا مال گھنے جنگلات ہیں تو دوسری طرف سویابین اور پام آئل کے کھیتوں کے ساتھ جنگلات کا صفایا کرنے والی کمپنیوں کے ملازموں کی فوج جو تن دہی سے ان جنگلات کی کٹائی میں مشغول ہے ۔ استوائی جنگلات کی کئی ایسی انواع تھیںجن تک ہماری رسائی بھی نہیں ہوئی وہ ان اربوں درختوں کے ساتھ ہی غائب ہوگئیں۔ اس عمل کی ضمنی پیداوار گرین ہاﺅس گیسوں کی بے تحاشہ مقدار ہے جس کے اثرات صرف خوراک کے ضیاع کی وجہ سے کرہ ارض کے انسانوں کو بھگتنے ہوں گے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے
کہ صرف گزشتہ صدی میں خوراک کی عالمی پیداوار میں 25 فی صد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
گھنے جنگلات کی قیمت پر زراعتی رقبے میں اضافے سے وقتی طور پر تو غذا کی کثرت سے فراہمی ممکن ہوجاتی ہے مگر دنیا بھر کے افراد کو غذا کی فراہمی کئی متبادل طریقوں سے بھی ممکن ہے۔ جو ماحولیات کے لئے بھی نقصان دہ نہیں ہیں۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ غذا کے ضیاع کو روکنا بھی ہے۔ صرف امریکہ میں 50فی صد خوراک کوڑے کی زینت بنتی ہے۔ برطانیہ میں 20 ملین ٹن خوراک ضائع کردی جاتی ہے۔ جاپان بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہا۔ وہاں 101.6ارب ڈالر مالیت کی خوراک تلف ہوجاتی ہے۔ پوری مغربی دنیا میں خوراک کو پھینک دینے والی جنس سمجھا جاتا ہے۔ اس ضیاع کے ماحولیاتی اور سماجی اثرات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ کوئی نہیں چاہتاکہ امیزون کے بارانی جنگلات تباہ کردیئے جائیں مگر ہوتو یہی رہا ہے۔ اگر ترقی یافتہ اور کچھ ترقی پذیر دنیا کی اشرافیہ اگر خوراک کو ہر سال ٹنوں کے حساب سے ضائع کرنا چھوڑ دیں تو ایک طرف دنیا کے ماحول پر دباﺅ کم ہوگا تو دوسری طرف شاید دنیا سے قحط کے خاتمے میں بھی
مدد مل سکے۔
خوراک کا زرعی اجناس سے تیار یا نیم تیا ر شدہ غذا تیار کرنے کا عمل اب سادہ نہیں رہا۔ اب غذا کئی صنعتی مراحل سے گزر کر ہمارے ہاتھوں تک پہنچتی ہے۔پروسیسنگ اور پیکجنگ وغیرہ اب بہت پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ آلو سے لیکر چپس تک چھوٹی بڑی کئی اقسام کی پیکنگ ضروری ہے، خوراک کے ضیا ع کے علاوہ یہ تمام پیکنگ بھی کچرے میں اضافے کا
باعث بنتی ہے ۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ان تمام اقسام پیکنگ کی صنعتی تیاری بڑے پیمانے پر فضائی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پزیر ممالک کے بڑے شہروں میں جس قدر خوراک کا ضیاع ہوتا ہے اس کے دسویں حصے سے دنیا میں بھوک سے مرنے والے لاکھوں افراد کو دووقت کا کھانافراہم کیا جاسکتا ہے۔ 2009 ءمیں شائع ہونے والی کتاب ”WASTE“ کے مصنف TRISTRAM STUARTاس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ خوراک کا ضیاع نہ صرف یہ کہ ماحولیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے بلکہ ہر سال غذا کے بڑے پیمانے پر ضیاع کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں عالمی مارکیٹ سے زیادہ سے زرعی اجناس کی خریداری کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان اجناس کی خریداری دیگر ممالک کے لئے بے حد مشکل ہوجاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے اس طرز عمل کی وجہ سے غذائی اجناس عالمی مارکیٹ سے غائب ہوکر بالآخر ان ممالک کے کچرادان میں پہنچ جاتی ہیں۔ جس طرح بڑھتی آلودگی صنعتی عوامل کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر ہمارے طرز عمل سے وابستہ ہے اسی طرح ہمیں یہ بات بھی مان
لینی چاہیے کہ دنیا خوراک کے ضیاع سے متعلق ہمارے طرز سے بھی متاثر ہورہی ہے۔
مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق امریکہ اور یورپی ممالک میں ” بائیو فیول“ کی تیاری نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ اب گندم اور مکئی سے لوگوں کا پیٹ بھرنے کے بجائے گاڑیوں کے فیول ٹینک بھریں گے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی محققJeam Zieglerنے بائیو فیول پر اپنی تحقیق کے اختتام پر اسے "انسانیت کے خلاف جرم” قرار دیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق بایو فیول بنانے کا عمل ماحول کو آلودگی سے بچانے کے بجائے اسے نقصان پہنچانے اور پہلے سے غذائی مسائل کا شکار آبادی کو بھوک کی طرف دھکیلنے کا عمل ہے۔2007 سے 2008 تک 95 ملین ٹن زرعی اجناس سے بائیو فیول تیار کیا گیا۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ دن دگنی اور رات چوگنی ہوتی ہوئی قیمتوں اور بھوک کا ایک سبب بائیو فیول کی تیاری ہے۔ بائیو فیول میں استعمال ہونے والی خوراک سے دگنی مقدار اس خوراک کی ہے جو ضائع کردی جاتی ہے۔ دن بہ دن بائیو فیول کے خلاف عوامی شعور اجاگر ہو رہا ہے۔ مگر تیارشدہ خوراک کے ضیاع سے متعلق ہمارا رویہ ہنوز لاپرواہی کا ہی ہے حالانکہ بائیو فیول سے دگنی خوراک ہم ضائع کر دیتے ہیں ۔ غذا کو کچرے میں پھےنکتا ہوا انسان اس بات سے لاتعلق ہے کہ ٹھیک اسی لمحے بے شمار انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔ بھوک سے مرنے والے انسانوں کے اعداد و شمار ہوش رباہیں اور دور جدید کے انسان کی بے حسی پر ماتم کنا ں بھی ، صرف شمالی کوریا میں اب تک پچاس لاکھ افراد قحط کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں ۔اس وقت ۱۵ لاکھ سے زائد انسان افریقی ممالک میں مرنے کے قریب ہیں ۔اگر بائیو فیول کی روز افزوں تیاری اور تیار شدہ خوراک، تازہ سبزیوں اور پھلوں کا ضیاع روک دیا جائے تودنیا سے بھوک کا کاتمہ باآسانی ممکن ہے بلکہ اس طرح خوراک کی عالمی قیمتوں کوبھی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اگر خوراک کی بائیو فیول اور بڑھتے ہوئے کچرے کی وجہ سے تیزی سے بڑھتی طلب کو قابو نہ کیا گیا تو دنیا کا ماحولیاتی توازن قائم نہیں رہے گا۔ ماحولیاتی توازن کو ایک مرتبہ بگڑنے کے بعد دوبارہ قائم کرنا ناممکن ہے اس کا نتیجہ دنیا سے کئی انواع کا
خاتمہ ہوگا جن میں نوع انسان بھی شامل ہے۔
خوراک کی کمی اب صرف ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ نہیںرہا بلکہ ترقی یافتہ دنیا میں لاکھوں لوگ مناسب خوراک سے محروم ہیں۔ صرف برطانیہ میں 40 لاکھ سے زائد افراد اچھی خوراک تک رسائی نہیں رکھتے۔ اس طرح امریکہ میں 3 کروڑ پچاس لاکھ افراد ایسے خاندانوں سے منسلک ہیں جن کی خوراک ناکافی ہے۔ یورپ میں 4کروڑ30لاکھ افراد مناسب خوراک سے محروم ہیں عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب افراد انہی معاشروں میں موجود ہیں جہاں سپر مارکیٹیں لاکھوں ٹن بہترین خوراک کو کچرے کی زینت بنارہی ہیں۔ اس مسئلے کا حل اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ خوراک باسی بنا کر پھینکنے کے بجائے تازہ حالت میں ہی بھوکے اور غریب افراد تک پہنچادی جائے۔ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ اضافی خوراک کے انبار کو ہم بلا آخر کوڑے میں پھینکنے کے بجائے اس کے ذریعہ دنیا سے بھوک کا خاتمہ کردیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں گرین ہاﺅس گیسوں کی 30 فی صد سے زائد مقدار خوراک پروسیسنگ اور پیکنگ کے دوران خارج ہوتی ہے۔ اگر محض یورپ میں خوراک کو پچاس فی صد تک ضائع ہونے سے بچا لیا جائے تو گرین ہاﺅس گیسوں کا اخراج بھی بڑی حد تک قابو میں ا ٓسکے گا۔ وہ اضافی رقبہ جو محض غیر فطری غذائی طلب کی وجہ سے زیر کاشت لایا جارہا ہے۔ اگر واپس دوبارہ جنگلات میں تبدیل کردیا جائے تو دنیا میں گرین ہاﺅس گیسوں کا 50 سے 90 فی صد تک اخراج کم ہو سکتاہے۔ جدید انسان اپنی مخصوص صارفانہ زہنیت کی بناءپر ماحول کے بچاﺅ کے لئے اپنے طرز زندگی کی قربانی کے لئے تیار نہیں۔ ماحول کے بچاﺅ کے لئے کاروں اور ہوائی جہازوں کا استعمال کم کرنا یا ترک کرنا بہت مشکل فیصلہ مانا جاتا ہے۔ مگر ماحول کے بچاﺅ کے لئے محض خوراک کے ضیاع سے بچنا تو کوئی ایسا دشوار نہیں جیسا کہ گاڑیوں کا کم از کم استعمال یا ہوائی جہازوں کا ترک کرنا ہے۔ ماحولیات کی تباہی اور بھوک دونوں برائیوں کا خاتمہ محض خوراک کا ضیاعروکنے سے ہی ممکن ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ سراسر نفع کا سودا ہوگا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟؟
کچھ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں ہوٹلوں اور کھانے کے ڈھابوں والے اےسی تمام خوراک جس کا اگلے خراب ہونا یقینی ہو اسے پھینکنے کے بجائے غرباءمیں تقسیم کردیتے ہیں۔ اسی طرح کفایت شعاری کے تحت مقامی کونسلیں سبزیوں اور پھلوں سے متعلق اشیاءایک ایسی جگہ جمع کردیتی ہیں جہاں سے گائیں اور بھینسیں اپنی خوراک حاصل کر لیتی ہیں۔ ڈھاکہ اور دہلی میں بھی تقریباََ یہی صورت حال موجود ہے۔ کیا غریب ممالک کی ان مثالوں میں بقیہ دنیا خاص طور پر
مغربی دنیا کے لئے کو ئی سبق موجود ہے؟؟
بہر حال یہ بھی ایک افسوس ناک صورت حال ہے کہ ایسے ممالک جہاں غربت عام ہے وہاں خوراک کا بے دردانہ ضیاع معمول بن چکا ہے۔دنیا بھر کی طرح ہمارے ملک میں ہوٹلوں میں ایک وقت میں کئی کئی کلو اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں کئی کئی من روٹی اور سالن و دیگر اشیاءمثلاً سلاد دہی، بوتیں، وغیرہ ضائع ہو جاتی ہیں۔غذا کے ضیاع میں اہم ترین ادارے سپر مارکیٹیں ، ہوٹل اسپتال سرفہرست ہیں ۔ غذائی زیاں کے اداروں کی فہرست میں ہسپتالوں کانام دیکھ کر لوگوں کو تعجب ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں دعوتوں اور غذائی کارخانوںکے بعد سب سے زیادہ ہسپتالوں میں کھانا ضائع ہوتاہے ہسپتالوں میںنام نہاد ماہرین تغذیہ [Diet experts] مریضوں کو خوراک کی ایسی اقسام اور اتنی مقدار تجویز کرتے ہیں جو ایک عام صحت مند آدمی بھی نہیں کھا سکتا عموماً یہ کھانا اس قدر بد ذائقہ ہوتاہے کہ مریض اسے کھانا پسند نہیں کرتا لہٰذا یہ تمام کھانا ہسپتالوں میں ضائع ہوتا ہے ہمیں دنیا بھر کے ہسپتالوں کے طرزعمل سے قطع نظر صرف کراچی کے ایک بڑے ہسپتال کا حال پیش کرتے ہیں۔ کینسر کے ایک مریض کو جو آدھی چپاتی بھی مشکل سے کھاسکتاہے اسے صبح ناشتے میں ایک پراٹھا ، انڈہ یا آملیٹ، دو ٹکڑے ڈبل روٹی، مکھن، جام، دودھ کے ساتھ دلیہ اور چائے دی جاتی ہے کیا ایک صحت مند آدمی یہ غذا استعمال کرسکتاہے دوپہر کو سالن ،چاول، روٹی، میٹھا ،سبزی ،گوشت ،مرغی وغیرہ دی جاتی ہے۔تمام مریضوں کو کم و بیش یہی غذا دی جاتی ہے اور تمام مریض ایک چوتھائی غذا استعمال کرتے ہیں تین چوتھائی غذا پھینکی جاتی ہے یہ ممکن نہیںہے کہ آپ اپنی پسند کے مطابق جو کھانا چاہیں وہ حسب طلب لے لیںیہ طریقہ ایک فطری طریقہ ہے لیکن یہ طریقہ اس لئے اختیار نہیںکیاجاتا کیونکہ سرمایہ داری کا پہیہ نہ چل سکے گا جو consumptionپر چلتا ہے صبح دوپہر رات کے کھانے میں ہر مرتبہ ایک پلاسٹک کا چمچہ، پلاسٹک کی چھری، اور پلاسٹک کا کانٹا بھی مہیا کیا جاتاہے اگر مریض دس دن ہسپتال میں رہے تو ۰۹ پلاسٹک کے چمچے ،کانٹے ،چھریاں استعمال کری گا اس کی قیمت بھی مریض سے وصول کی جائے گی حفظان صحت کے اصولوں کے تحت یہ چمچے فوراً پھینک دیے جاتے ہیں ہر مرتبہ نمک اور شکر کاغذ کی پڑیوں میں مہیا کیا جاتا ہے کیا ہسپتال کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ مریض کو داخلے کے وقت دھاتی شکر دان، نمک دان، چمچہ کانٹا چھری دے دے اور واپس نہ کرنے کی صورت میںاس کی قیمت بل میں شامل کرے لیکن اس کار خیر کے نتیجے میں ہسپتال آلودگی پھیلانے کا جو کار خیرانجام دے رہا ہے اس میں شدید کمی ہوگی اور ان اشیاءپر ملنے والا منافع، کمیشن کم ہو جائے گا، صرف ایک ہسپتال روزانہ ہزاروں چمچے، پلاسٹک کی تھیلیاں،کاغذ کے ٹکڑے پھینک کر آلودگی میں اضافہ کررہا ہے تو دنیا بھر کے ہسپتالوں کی جانب سے خوراک اور وسائل کے زیاں کا اندازہ کیا جاسکتاہےصرف بھارت میں ہر سال 14 ارب ڈالر مالیت کی زرعی اجناس کا ضیاع ایک معمول بن چکا ہے۔
دیار مغرب میں مشرق کی غربت کا تذکرہ ایک معمول ہے مگر ترقی یافتہ دنیا کو ایسے مشرقی ممالک سے ضرور سبق حاصل کرنا چاہئے جہاں ری سائیکلنگ کا نظام اس وقت سے جاری ہے جب یورپ میں اس کا غلغلہ بلند نہیں ہوا تھا۔ بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں ہر ماہ 100 سے زائد بائیو گیس پلانٹ نصب کردئے جاتے ہیںجو حیوانی فضلے کو کام میں لا کر گھروں کے چولہے جلانے کا کام دیتے ہیں۔اس سے زیادہ قابل غور امر یہ ہے کہ آج جب کہ دنیا کی تاریخ میں گندم اور چاول کی ریکارڈ فصلیں پیداہورہی ہیں دنیا میں سب سے زیادہ قحط کیوں موجود ہے ۔ کہیں اس کی وجہ عہد حاضر کا انسان تو نہیں جو انبیا ءعلیہ سلام کی عطا کردہ اس دانش سے محروم تو نہیں جو خوراک کے ضیاع کو روک کر ایثار اور بھوکے انسان کا پیٹ بھرنے کو سب سے بڑی نیکی قرار دیتی ہے۔ اس لیے دنیا نے ٹی وی پر یہ نظارہ دیکھا کہ ایتھوپیا، جنوبی کوریا، صومالیہ ، سوڈان، میں قحط کے بعد جب قحط زدہ لوگ اپنے ملک کی سرحدوں سے دوسرے ممالک کی سرحدیں پھلا نگنے لگے تو ان کی عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ لیکن ٹی وی نے یہ منظر بھی دیکھا کہ انہی سرحدوں سے اس قحط زدہ ملک کے جانور، مویشی، پرندے ہجرت کر رہے تھے لیکن ان پر کوئی گولی نہیں چلائی گئی، انھیں خوش آمدید کہا گیا، ان کو روکا نہیں گیا، یہ کیسی تہذیب، کیسی تاریخ، کیسا انسان، کیسا عہد، اور کیسا زمانہ ہے کہ انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے ان کو سرحد عبور نہیں کرنے دی جا رہی، ان کو قحط سے مرنے کے لیے زبردستی بھوک اور پیاس کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے اور جانوروں کو ہجرت کی آزادی ہے،کہا جاتا ہے کہ ہم تاریخ کے سب سے عظیم عہد میں جی رہے ہیں، جب تمام ظلم ختم ہوگئے ہیں، انسان بہت روشن خیال اور مہذب ہوگیا ہے، اس جاہل خودساختہ فقیہہ اور برخود غلط انسان کو یہ معلوم نہیں کہ عصر حاضر دنیا کا سفاک ترین عصر، اس کا انسان دنیا کی تاریخ کا وحشی ترین درندہ اور اس کی اخلاقیات نفس پرستی شکم پرستی اور جاہ پرستی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
بہر حال مشرق و مغرب کی اقوام کو خوراک کے ضیاع کی یہ روش ترک کرکے ہادی اعظم ﷺ کے اس فرمان کی طرف متوجہ ہونا چاہئے جس کے مطابق”فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔” اور قرآن مجید فرقان حمید کی آیت مبارکہ اس موضوع پر حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے۔
” کھاﺅ پیو مگر اسراف نہ کرو۔” (القرآن)

تبصرہ کریں