زوالِ امت میں ٹیکنالوجی کا کردار


نیازسواتی
niazhussain.swati@yahoo.com

کیا امت کا زوال سائنس و ٹیکنالوجی میں پس ماندگی کی وجہ سے ہے ؟
سائنس و ٹیکنا لوجی کو عام طور پر ایک ہی سمجھا جاتا ہے مگر ان دونوں کے درمیان فرق ہے ۔ سائنس تو معلومات کو منطق اور تجربے پر پرکھ کر متعین قوانین کی دریافت کا نام ہے۔ اس کے مقابلے میں ٹیکنالوجی، معلوم شدہ سائنسی قوانین کا اطلاق کرکے ایسی اشیاءکی تیاری کا طریقہ¿ کار ہے جن کی مارکیٹنگ ممکن ہواوران اشیاءکی تیاری پر آنے والی لاگت اس کی قیمت فروخت سے کم ہو ۔ اگر کسی ٹیکنالوجی کے ذریعے تیارکی جانے والی اشیاءکی لاگت ان کی قیمت فروخت سے زیادہ ہو تو ایسی ٹیکنالوجی ترک کردی جائے گی۔ سائنس تو ایک علم کا نام ہے مگر موجودہ دور کی ٹیکنوسائنس کا گہرا تعلق سرمایہ داری کی ساتھ ہے۔ ٹیکنالوجی سرمایہ داری کی اقدار اپنے ساتھ لے کر آتی ہے ۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جن معاشروں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو عروج حاصل ہوا ان تمام معاشروں میں مذہبی، اخلاقی اور خاندانی اقدار زوال پذیر ہو گئیں۔ امریکی اور یورپی معاشرے اس کی واضح مثال ہیں اور اب چین بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔
تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج جو مغربی تہذیب نے پیش کیا وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا تھا اور ہے۔اس چیلنج کاجواب سرسید سے اب تک یہی دیا گیا ہے کہ مغرب نے اب تک کی تمام ترقی سائنس وٹیکنالوجی کے طفیل کی ہے لہٰذا اگر امت ِ مسلمہ کو بھی اگر ترقی کے راستے پر جانا ہے اور مغرب کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں بھی سائنس وٹیکنالوجی کا وہی ہتھیار حاصل کرنا پڑے گا جو مغرب کے پاس ہے۔
اس کے مقابلے میں دوسرے مکتبہ¿ فکر کا خیال ہے کہ تاریخ کا مطالعہ اس بات کو غلط ثابت کرتا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت قومیں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتی ہیں ۔ اس سلسلے میںسب سے پہلی مثال مسلم افواج کے ہاتھوں ایران اور روم کی طاقتوں کی شکست ہے۔ ایران کی عظیم الشان سلطنت کے انہدام کے بعد روم کے دارلسلطنت قسطنطنیہ کی فتح نے اسباب ،عسکری قوّت اور ٹیکنالوجی کے بجائے ایمان کوبرترطاقت ثابت کردیا۔
بعد کے تاریخ میں تاتاریوں کے عباسی سلطنت پر حملے اور قبضے نے اس موقف کو استحکام بخشا ۔ تاتاریوں نے جب عباسی سلطنت پر حملہ کیا تو عباسی سلطنت دنیا کے تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی ۔ اس سلطنت میں علم کے عروج کا یہ عالم تھا اس کہ بیت الحکمت میں اٹھائیس زبانوں میں ترجمہ کرنے کا انتظام موجود تھا ،خود دربار میں منطق ،فلسفے اور انشاءپر بحثیں معمول کا حصہ تھیں۔گھوڑوں، تلواروںاور لشکر میں عباسی سلطنت کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ مگرصحرائے گوبی کے وحشی تاتاریوں نے آناََ فاناََ عباسی سلطنت کو الٹ کررکھ دیا۔ اس زمانے کی سائنس میں عباسیوں کا عروج اور عظیم الشان مملکت کی شان وشوکت انہیں تاتاریوں کے ہاتھوں شکست سے نہ بچاسکی ۔ تاریخ نے بتایا کہ کم تر وسائل اور سائنس سے بے گانگی تاتاریوں کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکی اور نہ ہی عباسیوں کی علمی برتری انہیں شکست سے محفوظ رکھ سکی ۔
دوسری طرف یہ ہوا کہ عالم اسلام نے عباسی سلطنت کی شکل میں اپنا ملک کھودیا مگر تاریخ نے یہ بھی بتایا کہ عالم اسلام نے دوبارہ تاتاریوں پر غلبہ حاصل کرکے اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کردیا، مگر سب کچھ سائنس کی بدولت نہ ہوا بلکہ ہوا یہ کہ تاتاریوں نے بلاشبہ جنگ کے ذریعے مسلمانوں کے مغلوب کرلیا مگر اسلام کے آفاقی پیغام سے شکست کھاگئے اور تاتاریوں کی بہت بڑی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا ۔ بقول اقبال :
ع کعبے کو مل گئے پاسباں صنم خانے سے
اقبال کہتے ہیں:
ع حرم رسوا ہوا پیر ِ حرم کی کم نگاہی سے جوانان ِ تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
اب تاتاریوں کی عسکری قوت اسلام کی طاقت میں ڈھل گئی اور اسلام نے اپنی عسکری شکست کو محض اپنے ابدی پیغام کی قوت سے فتح میں بدل کر دوبارہ عروج حاصل کرلیا۔ موجودہ دور کا منظر نامہ دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کی فتح وشکست کبھی سائنس و ٹیکنالوجی کی مرہون منّت نہیں رہی ۔ ویت نام اور امریکہ کی جنگ میں امریکہ کی تمام تر عسکری قوت اور ٹیکنالوجی کی برتری اسے شکست سے نہ بچاسکی ۔ اس سے قبل افغانستان پر حملہ کرنے والی برطانیہ کی چالیس ہزار افواج میں سے صرف ایک ڈاکٹر جان بچاکر واپس آسکا۔مگر کہا جاتا ہے انسان نے تاریخ سے یہی سبق سیکھا ہے کہ اس نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا لہٰذا روس بھی اسی افغانستان پر حملہ آور ہوا مگر افغان جنگ نے روسی معیشت کا جنازہ نکال دیا ۔یہاں تک کہ اس وقت کے روسی صدر برزنیف نے افغانستان کو روس کے لیے ایک رستا ہوا ناسور قرار دے کر اس جنگ سے پسپائی اختیار کرلی۔ایک بار پھر ٹیکنالوجی ہار گئی اور ایمان کو فتح حاصل ہوئی ۔
سائنسی وسماجی علوم کی برتری کے باوجود مسلمانوں کی شکست کا ایک ثبوت مسلم ہسپانیہ کا سقوط ہے جس کا دردناک مرثیہ اقبال نے لکھا ۔آج بھی سائنس و ٹیکنالوجی کو عروج وزوال کا واحد سبب سمجھنے والے اندلس میں مسلمانوں کی سائنسی برتری کا بہت چرچا کرتے ہیں مگر مسلم اسپین کا انجام کاذکر کرتے ہوئے انہیں سانپ سونگھ جاتاہے۔ یہ کوئی نہیں بتاتاکہ اسپین کے مسلمانوں کی برتری اور بلند وبالا عمارات انہیں نہ صرف یہ کہ شکست سے نہیں بچاسکیں بلکہ اسپین سے مسلمانوں کا وجود ہی صفحہ ¿ ہستی سے ہی مٹ گیا۔ آج اسپین ،وہ اسپین جسے اقبال نے خون مسلماں کا امیں قرار دیااسی اسپین میں جامع مسجد،الحمرا ءکے محلات اور دیگر پرشکوہ عمارات تو باقی ہیں مگر مسلمان باقی نہیں ہیں۔ اس کے مقابلے میں مشرق وسطیٰ میں اسلام اور مسلمان اپنی سائنسی پس ماندگی کے باوجودزندہ و توانا رہے۔ اسلام کے ابدی پیغام کی قوت کے بدولت آج حضرت صالح اور ابراہیم علیہم السلام کی تعلیمات تو باقی ہیں مگر حیرت انگیز ٹیکنالوجی سے کام لے کرپہاڑوں میں گھر اور اہرام مصر بنانے والوں کا تذکرہ بھی باقی نہ بچا اور اگر کہیں ان کا ذکر ہوتا ہے تو عبرت کی خاطر ۔فااعتبرو یا اولی الابصار
تاریخ کے واضح پیغام کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ نے اپنی سائنس وٹیکنالوجی ،دولت اور عسکری طاقت کے زعم میں روس افغان جنگ سے چور چور افغانستان پر حملہ کردیا ۔اس جنگ میں افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان نے امریکہ کی ایک دھمکی کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا ۔ اس جنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان دنیا کی بہترین افواج ،قدرتی وسائل ،بڑی آبادی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے باوجود محض ایک دھمکی میں ڈھیر ہوگیامگر بغیر کسی باقاعدہ فوج ، بڑی آبادی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے افغان مجاہدین نے امریکہ کو دس سال سے ایک ایسی جنگ میں مصروف رکھاہوا ہے جس نے امریکی فوج پراس کی ٹیکنالوجیکل برتری کے باوجود تھکن طاری کردی ہے ۔
آج نمایاں ترین مغربی جریدےوںاور اخبارات کاکہناہے کہ ٹیکنالوجی سے مسلح امریکی فوج کے افسراورجوانوںنے افغانستان میں خود کشی کے نئے ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔اعداد وشمار بتا رہے کہ خود کشی کرنے والے امریکی فوجی میدان جنگ میں مرنے والے فوجیوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں اور ان سے زیادہ تعداد ان سپاہیوں اور افسروں کی ہے جو نفسیاتی امراض کا شکار ہوکر ناکارہ ہورہے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں افغان مجاہدین کا مورال اس قدر بلند ہے کہ وہ نیٹو فورسز کے کابل میں قائم کردہ محفوظ ترین گرین زون میں بھی کامیاب حملے کررہے ہیںاور اپنی فتح کے بارے پرامید ہیں۔
اس سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ٹیکنالوجی واقعی کوئی عروج زوال اورانسانی مسائل کے لیے فائدہ مند ہے؟ نسل ِانسانی نے اپنے آغاز سے آج تک جس ادارے کے سبب اپنا وجود قائم رکھا ہے وہ خاندان کا ادارہ ہے۔ ٹیکنالوجی کی تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں جہاں سائنس وٹیکنالوجی کو عروج حاصل ہوا ہے وہاں خاندان کے ادارے کو نقصان پہنچاہے ۔ خاندان سے وابستہ دیگر معاشرتی ومذہبی اقدار بھی ٹیکنالوجی کے حامل معاشروں میں زوال کا شکار ہوگئیں۔جرائم ،خود کشی کے حوالے سے پہلے مغربی ممالک آگے آگے تھے اب اعدادوشمار بتا رہے ہیںکہ چین خود کشی کی شرح میں سب سے آگے جارہاہے کیوں کہ سائنس وٹیکنالوجی میں چین کی ترقی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ روزنامہ ٹائمز کا تجزیہ ہے خود کشی میں اضافے کا براہ راست تعلق ٹیکنالوجی میں ترقی سے ہے ۔آج دنیا میں جرائم ،خود کشی اور خاندان کے زوال کا سب سے زیادہ شکار وہی ممالک ہیںجو ٹیکنالوجی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں انسانی صحت اور ماحول کا پہنچنے والا ناقابل تلافی نقصان اس معاملے کا دردناک پہلو ہے جو ٹیکنالوجی کی حامل قوموں کی سنگ دلی اور دریدہ د ہنی کا شاہکار ہے ۔ 2009 کوپن ہیگن میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ماہرین نے مسئلہ اٹھایا کہ ٹیکنالوجیکل گروتھ اور اس کے پیدا کردہ کچرے کی وجہ سے دنیا کا درجہ¿ حرارت بڑھ رہاہے ۔اس صورت حال میں دنیا اگلے پچاس سال کے دوران رہنے کے قابل نہیں رہے گی لہٰذا تمام ریاستوں کے مل کر دنیا کے مجموعی درجہ¿ حرارت کو کم از کم چار ڈگری سینٹی گریڈ کم کرنا پڑے گا۔ اس طرح انسانیت کو سکون کے پچاس سال مل جائیں گے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیرپا ترقی Development) (Sustainable کے متبادل طریقے وضع کیے جاسکیں گے۔ کانفرنس کی اس دستاویز پر عالمی درجہ ¿ حرارت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے امریکہ ،چین ،روس،بھارت اور یورپی ممالک کسی نے دستخط نہیں کیے ۔انہوں نے کہا کہ دنیا کا درجہ¿ حرارت کم کرنے کا مطلب ٹیکنالوجیکل ڈیویلپمنٹ کا عمل سست کرنا ہے جس کے لیے ہم تیار نہیں کیوں کہ اس کے نتیجے میں ہمارا جو نقصان ہوگا اس کا کون ذمہ دار ہوگا ۔اس کانفرنس میں کہا گیا کہ چین اور بھارت کی ٹیکنالوجی ،یورپی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ردی (Obsoleted Technology) ہے جو بہت زیادہ آلودگی پیدا کرتی ہے لہٰذا یہ دونوں ممالک اپنے ٹیکنالوجیکل ترقی کو سست کریں مگر ان دونوںممالک نے کہا کہ ہم اس ٹیکنالوجی پر کئی بلین ڈالرز خرچ کرچکے ہیںوہ ہمیں دے دیے جائیں ۔مغربی ممالک نے اس ادائیگی سے انکار کردیا ۔ بلآخر اس کانفرنس میں شریک تمام ترقی یافتہ یورپی اور تیزی سے ترقی پذیر ممالک چین اور بھارت نے بزبان ِحال اور بزبان ِقال بھی کہا کہ دنیا جائے بھاڑ میں ہمیں اس سے کیا سروکار؟ اس کانفرنس کی صدارت کرنے والی خاتون اس کانفرنس کی قرارداد کا مسوّدہ پھاڑ دیااوریہ کہہ کر چلی گئی کہ ان ممالک نے صنعتی ترقی کو انسانیت کے مستقبل پرترجیح دے دی ہے لہٰذا اس دنیا کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ یہ حیرت انگیز بات اس خاتون سے قبل جرمنی کے مشہور مفکر ہائیڈیگر نے اپنی کتاب (Questions Concerning Technology) میں کہی ۔ ہائیڈیگر نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ٹیکنالوجی کے عفریت اور اس کے پیدا کردہ مسائل سے دنیا کو کون بچائے گا تو ہائیڈیگر کا جواب تھا کہ ٹیکنالوجی کے عفریت سے دنیا کو صرف اللہ ہی بچاسکتاہے حالانکہ وہ خود خدا کو نہیں مانتا تھا۔
ٹیکنالوجی کے ذریعے مغرب کو شکست دینے کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ مغرب تیسری دنیا کو جدید ٹیکنالوجی ٹرانسفر نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ متروک شدہ (Obsoleted) ٹیکنالوجی دیتا ہے ۔ ایسی ٹیکنالوجی کو ہمارے ہاں اعلیٰ اور جدید تحقیق کے نچوڑکے طورپر پیش کیا جاتاہے۔ ایسی صورت حال میں جب کہ امت نے مغرب سے مقابلے کی ٹھان لی ہو تو کیا مغرب خود جدید ترین ٹیکنالوجی طشتری میں رکھ کر پیش کرے گاکہ یہ لو مجھے اسی ٹیکنالوجی سے ختم کردو، ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔اس مسئلے کا دوسرا حل سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق ہے مگر مغربی ممالک کو اس میدان پیچھے چھوڑنا ناممکن ہے ۔ مغربی ممالک کو ان کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اربوں روپے کی سرمایہ کاری اس مد میں کررہی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے جس میدان میں ہم ابتدائی پیش رفت کررہے ہیں مغربی ممالک اس میں کئی دہائیاں بلکہ نصف صدی آگے ہیں ۔ اس کی مثال ہمارا ایٹمی پروگرام ہے ۔کہا جاتاہے کہ اس پروگرام نے پاک بھارت جنگ کو روک رکھا ہے اور یہ پروگرام پاکستان کے تحفظ کی ضمانت ہے ورنہ بھارت پاکستان کوہضم کرچکا ہوتا ۔اس کے مقابلے میں ایک سوال یہ ہے کہ اس پروگرام کے آغاز سے قبل پاکستان کا تحفظ کون کررہاتھا ؟ اس پر مستزاد پاکستان کے موجودہ حالات ہیں۔ایبٹ آباد کے واقعے نے ہماری ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ایٹمی پروگرام ملک کا تحفظ کرے پوری قوم اٹیمی اثاثوں کے تحفظ کے لیے فکر مند ہے۔
ٹیکنالوجی کی بحث میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی جن مسائل کا سبب ہے ان میں ایک بے حسی بھی ہے جو براہِ راست ٹیکنالوجی کے استعمال سے وابستہ ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ماضی میں انسان جنگوں میں تلوار اور تیروتفنگ کے ذریعے ایک دوسرے سے برسرِپیکار تھا ۔ان جنگوں میں تلوار استعمال کرنے والا اپنی بہیمیت کے نتائج کا خود مشاہدہ بھی کرتا تھااور ان سے متائثر بھی ہوتا تھا۔ان قدیم جنگوں میں جب تاتاریوں جیسے سفاک حملہ آوروں کی تلواریں بغداد کے ان بے بس مسلمان بچوں ،عورتوں اور بزرگوں پر پڑیںجنہوں نے اپنے آخری وقت میں کلمہ ¿ طیبہ کو یاد رکھا تو تاتاریوں کو کلمہ¿ طیبہ کے پیغام کی طاقت اور اور خود اپنی طاقت کی کمزوری کا احساس ہوا۔اسی احساس نے تاتاریوں کے کیمپ میں ایمان کی شمع روشن کی ورنہ بغداد کی عسکری و علمی طاقت تو ہزیمت سے دوچار ہوچکی تھی ۔ اگر تاتاری اسلام کے ابدی پیغام سے متائثر نہ ہوجاتے تو اس وقت دنیا کی کون سی طاقت تھی جو انہیں دشمن ِاسلام سے …مجاہد اسلام میں تبدیل کرسکتی۔
ٹیکنالوجی کا استعمال انسانوں کو اپنے عمل کے نتائج اور مضمرات سے غیر متعلق(Detach) کردیتا ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی استعمال کرکے امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں بڑے پیمانے پرتباہی مچادی اور لاکھوں انسانوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ بے شمار افراد کو اپاہج بنادیا۔مگر امریکہ کی حکومت اور وہاں کے عوام اس انسانی المیہ سے غیر متعلق رہے کیوں کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے نتیجے میں کسی زخمی اور متوفی جاپانی کے خون کے چھینٹے ان کے ہاتھوں پر نہیں پڑے اور نہ اس المیے کا انہوں نے اس جنگ میں مشاہدہ کیا ۔ ایک امریکی ہوائی جہاز نے جاکر یہ تباہی کردی اور بس…… مگر آج تک ہیروشیما اور ناگاساکی کے اپاہج پیدا ہونے والی جاپانی نسل اس حملے کے نتائج بھگت رہی ہے۔روایتی اور جدید ٹیکنالوجی میں فرق یہ ہے کہ تلوار سے ہونے والی جنگ انسان کو زندگی اور اس کے حقائق سے جوڑکر( Attach)کرکے رکھتی تھی اور اس کے برعکس جدید ٹیکنالوجی زندگی کے تلخ حقائق سے انسان کو کاٹ دیتی ہے۔فرض کریں کہ پنٹاگون میں بیٹھے ہوئے امریکی افسروں کو معلوم ہو کہ کراچی کے ایک ادارے میں بیٹھ کرکچھ لکھاری امریکہ کے خلاف لکھ اور بول رہے ہیں جس کے نتیجے میں امریکی دفاعی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے وتووہ امریکی افسر ایک ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر بڑے اطمینان سے امریکی بحری بیڑے کو ہماری عمارت پر میزائل داغنے کا حکم دے کر مزے سے آئس کریم کھاتے ہوئے میزائل حملے کے نتائج دیکھ سکتا ہے اس کے مقابلے میں قدیم طریقے سے دوبدولڑنے والا فوجی ہوسکتا ہے کہ بے گناہ بچوں اور بزرگوں کی خون میں لت پت لاشوں کے منظر کی تاب نہ لاسکے اور ہوسکتا ہے اپنے ہتھیار سے خود اپنے آپ کو ہی قتل کردے یا اپنے عقیدے پر موت تک استقامت کا مظاہرہ کرنے والے اہل ایمان سے متائثر ہوکر اسلام قبول کرلے۔آج عالمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے زبردست پراپیگنڈے اور مہم کے باوجوداسلام انتہائی تیزی سے انہی ممالک میں پھیل رہاہے جو سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔مغربی یورپ میں قبولیت اسلام کی بلند شرح اسلام کے ابدی پیغام کی قوت کی مظہر ہے ورنہ وہاں تو تمام تر ٹیکنالوجی اورمیڈیا تو اسلام مخالف یہودیوں کے ہاتھ میں ہے ۔
یہ امر تو واضح ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی تو عاد وثمود اور اہرام مصر سے لے کرآج تک ہر زمانے میں موجود رہی ہے مگر اس سلسلے میں یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا قدیم و جدید ٹیکنالوجی کا مقصد اور طریقے کار یکساں ہیں ؟ اس سوال کے جواب میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم دور میں سائنس کا مقصد "تلاش حقیقت ” تھا اور ٹیکنالوجی کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل رہا ہے مگر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا واحد مقصد سرمائے کا زیادہ سے زیادہ ارتکاز ہے۔ ایسی ہر ایک ایجاد جو سرمائے میں اضافے کا باعث نہ بن سکے فروغ نہیں پا سکتی۔

4 responses to this post.

  1. Posted by عبداللہ ٓدم on فروری 5, 2012 at 4:05 شام

    یقینا بہت ہی اچھے طریقے سے مثالوں اور حقائو کو پیش کیا گیا ہے۔

    اسلام اور جدیدیت اج ہمارے مذہبی سیکٹر کا نظر انداز شدہ موضوع ہے حالنکہ اس پر سب سے زیادہ توجہ انہی کو دینی چاہیے۔ ایسے میں لائق تحسین ہیں وہ لوگ جو امت کا درد سینوں میں لیے یہاں تہاں اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ روشنیوں کے چراغ جلاتے نظر ٓتے ہیں، جاھلیت جدیدہ کے اندیروں کی بظاہر فلک شگاف فصیلوں کو دلائل و براہین کے تیشوں سے ڈھاتے اور اسلام اور سماج، اسلام اور ہمہ گیریت ، اسلام اور عالمگیریت، اور اسلام اور عصر حاضر کے مسائل پر شعلہ زن رہتے ہیں۔ صرف اس یقین کے ساتھ کہ::

    ہمیں یقین ہے ہم میں چراغ ٓخر شب
    ہمارے معد اندھیرا نہیں اجالا ہے

    اللھم زد فزد

    جواب دیں

  2. Posted by ahmed ali khanani on اپریل 6, 2012 at 7:29 صبح

    masahallah kiya khoob tehreer ha
    allah mazeed nikhar paida kare aur islam ki behtreen khidmat ka moqa de
    i read ur this easy in a magazine then my friend talha abdullah told me about ur blog it is gr8 work my allah bless you

    جواب دیں

Leave a reply to اسلام و جدیدیت جواب منسوخ کریں